تحریر: کرن الیاس ستی
یہ اکیسویں صدی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر اخبار، ہر چینل، ہر گلی اور ہر قبرستان ہمیں چیخ چیخ کر ایک ہی سوال پوچھتا ہے:
کیا بیٹی ہونا واقعی جرم ہے؟
بیٹیوں کے قتل کی کہانیاں
کبھی غیرت کے نام پر، کبھی صرف “انکار” کی سزا میں، کبھی بیٹی پیدا کرنے کی “خطا” پر، اور کبھی محض اس لیے کہ وہ پڑھنا چاہتی تھی، جینا چاہتی تھی…
وہ مار دی جاتی ہے، جلا دی جاتی ہے، یا ہمیشہ کے لیے خاموش کر دی جاتی ہے۔
یہ صرف کہانیاں نہیں، بلکہ زخموں کی طویل فہرست ہے۔
- زہرہ: گئی۔
- سنا: …
- حمیرہ: گئیں۔
- عائشہ: …
- فریحہ، نور، سدرہ، فوزیہ، ماریہ، آمنہ، ہاجرہ…
یہ سب نام ایک کربناک سوال بن کر معاشرے کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
معاشرے کی خاموشی
ہمارا معاشرہ آج بھی “فرمانبردار، خاموش، صبر کرنے والی” عورت کو قبول کرتا ہے۔
لیکن جیسے ہی وہ بولتی ہے، پڑھتی ہے، حق مانگتی ہے —
وہ ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔
شہروں سے دیہات تک، تعلیم یافتہ اور خودمختار عورت آج بھی “خطرہ” سمجھی جاتی ہے،
کیونکہ وہ حق کے لیے خاموش نہیں رہتی۔
اور یہ مردانہ معاشرہ بیدار عورت سے ڈرتا ہے۔
قرآن کی گواہی
قرآن کہتا ہے:
“جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔”
(سورۃ المائدہ: 32)
اور ہم…؟
ہم روز انسانیت قتل ہوتے دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں۔
ہم اپنی بیٹیوں کو دفناتے ہیں، اور ان کے لیے آنسو بھی نہیں رکھتے۔
کب تک؟
- کب تک انصاف ہمارے دروازے پر دستک دیتا رہے گا اور ہم دروازہ بند رکھیں گے؟
- کب تک مائیں اپنی بیٹیوں کے لیے قبر کی زمین نرم کرتی رہیں گی؟
- کب تک بیٹیاں صرف “بیٹی” ہونے کی سزا پاتی رہیں گی؟
حل اور ذمہ داری
اب وقت ہے کہ ہم اپنی خاموشی کو دفنائیں اور آواز بنیں۔
- اپنی بیٹیوں کو تعلیم دیں۔
- انہیں جرات اور اعتماد دیں۔
- اور سب سے بڑھ کر — اپنے بیٹوں کو صحیح تربیت دیں۔
کیونکہ قاتل باہر سے نہیں آتا، وہ ہمارے گھروں میں ہی پروان چڑھتا ہے۔
انصاف اور سزا
ملک میں تبدیلی صرف قانون بنانے سے نہیں آتی۔
تبدیلی تب آتی ہے جب مجرم کو کھلی سزا ملے، اور قاتل عبرت کا نشان بنے۔
جب قوم دیکھے گی کہ ایک بیٹی کا قاتل واقعی انجام کو پہنچا ہے،
تو اگلا ہاتھ اٹھانے والا کانپ جائے گا۔
لیکن افسوس، یہاں قاتلوں کو پشت پناہی ملتی ہے، سفارشیں کام آتی ہیں، اور بیٹیاں پھر خاموش کر دی جاتی ہیں۔
ہمارا مطالبہ
- انصاف کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔
- ریاست خود مدعی بنے تاکہ کوئی خاندان دباؤ میں آ کر کیس واپس نہ لے۔
- قاتلوں کو سرِعام سزا دی جائے تاکہ باقی معاشرے کے لیے مثال بنے۔
کیونکہ جب تک مجرم بچتے رہیں گے — جرم بڑھتا رہے گا۔
جب تک نظام خوابیدہ ہے — بیٹیوں کے خواب دفن ہوتے رہیں گے۔
نتیجہ
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی زندہ رہے —
تو سب سے پہلے انسانیت کو زندہ کریں۔
🌐 Pak Achievers Times – آپ کی آواز، آپ کی اپنی کہانی
👉 www.pakachievers.com